مچھلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے کیمیکل فرٹیلائیزر اور نامیاتی کھاد کا استعمال
ہمارے ملک میں مچھلی کی افزائش کی صحیح جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے فش فارم ناکام ہوئے ہیں۔ مچھلی کی خوراک کے متعلق ہماری معلومات بہت ہی ناقص ہیں۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مچھلی مٹی کھاتی ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے. مچھلی کے منہ اور پیٹ میں خوراک کے ساتھ مٹی بھی شامل ہوجاتی ہے کیونکہ جب مچھلی کیچڑ میں اپنا کھانا تلاش کرتی ہے تو مٹی اس میں شامل ہوجاتی ہے۔ کچھ مچھلیاں گھاس بھی کھاتی ہیں جیسا کہ گراس کارپ لیکن اکثر مچھلیوں کی بنیادی خوراک خوردبینی پودے اور خوردبینی جانور جنہیں انگریزی میں فائیٹوپلینکٹن (الجی) اور زوپلینکٹن کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ پانی کے کیڑے مکوڑے بھی اکثر مچھلیوں کی خوراک کا حصہ ہیں۔
مچھلیوں کی خوراک کے حساب سے درجہ بندی خوراک کے لحاظ سے مچھلی کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے کچھ مچھلیاں پودوں سے متعلقہ چیزیں کھاتی ہیں۔ ان مچھلیوں میں سے اکثر کی خوراک خوردبینی پودے ہیں جیسے تھیلا اور سلور۔ کچھ مچھلیاں ملی جلی خوراک کھاتی ہیں جیسے خوردبینی پودے اور خوردبینی جانور اور ان کی خوراک میں کیڑے مکوڑے، گھونگے اور سیپیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ ان مچھلیوں میں گلفام، رہو، موراکھا اور تلاپیہ کے علاوہ اور بہت ساری مچھلیاں شامل ہیں۔ ان مچھلیوں میں سے کچھ بڑے آبی پودے بھی کھاتی ہیں۔ کچھ مچھلیاں ایسی ہیں جو گوشت خور ہیں۔ ان کو شکاری مچھلیوں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان میں کھگہ، سنگھاڑا، سول اور ملی یا جرکی اور دیگر مچھلیاں ںشامل ہیں۔
ہمارے ملک کی معروف مچھلیاں جیسے رہو، موراکھا، تھیلا، سلور، گلفام اور تلاپیہ وغیرہ پہلی اور دوسری قسم کی مچھلیوں میں شامل ہیں، اور ان مچھلیوں کی پیداوار بڑھانے کیلئے کیمیکل فرٹیلائیزر اور نامیاتی کھاد (گوبر، مرغیوں یا بطخوں کی بیٹ) ایک بہترین ذریعہ ہیں۔
کسی بھی تالاب میں مچھلی کی پیداوار بڑھانے میں زرخیزی کی بڑی اہمیت ہے۔ دوسرے الفاظ میں زرخیزی کسی تالاب میں مچھلی کی قدرتی خوراک پیدا کرنے کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہے. مچھلی کے تالاب میں مصنوئی طور پہ زرخیزی بڑھانے سے مچھلی کی پیداوار تین سے چار گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ تالاب میں زرخیزی بڑھانے کیلئے مویشیوں کی گوبر اور کیمیائی فرٹیلائیزر کے مناسب استعمال سے مچھلی کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے. کھاد کے استعمال سے پانی کی زرخیزی بڑھے گی تو اس کے نتیجے میں خوردبینی پودے (الجی) بڑی تعداد پیدا ہونگے۔ یہ پودے پانی میں خوراک کی زنجیر کی بنیاد بنتے ہیں۔ ان ہی پودوں کی وجہ سے پانی کا رنگ سبز نظر آتا ہے۔ خوردبینی پودوں کو خوردبینی جانور یعنی زوپلینکٹن اور دیگر جاندار کھاتے ہیں۔ ان کو پھر دیگر کیڑے مکوڑے اور چھوٹی بڑی مچھلیاں کھاتی ہیں۔ کچھ مچھلیاں سیدھی سیدھا خوردبینی پودوں کو کھاتی ہیں جبکہ کچھ خوردبینی جانوروں کو اور کچھ ان کے ساتھ دیگر سب کو۔
چھوٹے خوردبینی پودے اور جانور:۔ یہ چھوٹے پودے اور جانور وہ ہیں جنہیں ہم انسانی آنکھ سے نہیں دیکھ پاتے۔ انہیں دیکھنے کیلئے خوردبین کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پانی کے یہ پودے اور جانور ہیں تو بہت چھوٹے مگر مچھلی کی کاشتکاری میں ان کی بہت اہمیت ہے۔ چھوٹے خوردبینی پودے سورج کی روشنی میں پانی سے غذائی اجزاء جذب کرکے اپنے لئے خوراک بناتے ہیں اور پھلتے پھولتے ہیں۔ خوردبینی جانور اور پانی کے دیگر جاندار جیسے کیڑے مکوڑے انہیں کھاتے ہیں جنہیں مچھلی اور دیگر بڑے جاندار کھاتے ہیں۔
آکسیجن اور چھوٹے خوردبینی پودے:۔ جس طرح آکسیجن انسانوں کے لئے بہت اہم ہے اسی طرح دیگر جانداروں کیلئے بھی ہے۔ اور مچھلی کو بھی آکسیجن کی اتنی ہی ضرورت جتنی کہ کسی دوسرے جاندار کو۔ آکسیجن جسمانی پرورش اور صحت کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ چھوٹے خوردبینی پودے پانی میں آکسیجن کی دستیابی میں اہم ترین منبع ہیں۔ جس پانی میں یہ پودے کم ہونگے اس میں آکسیجن بھی کم پیدا ہوگی اور نتیجتاً ایسے پانیوں میں مچھلی اور پانی کی دیگر مخلوق بھی بہت کم ہونگی۔ لہذا لازم ہے کہ جس پانی میں ہم مچھلی پالنا چاہتے ہیں تو اس میں آکسیجن بھی زیادہ ہونی چاہئے اور آکسیجن کی وافر فراہمی کیلئے چھوٹے خوردبینی پودوں کی بہتات بھی اتنی ہی ضروری ہے۔
کھاد اور مچھلی کا آپس میں تعلق:۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ زمینی پودوں، فصلوں اور گھاس کی نشو و نما کیلئے کئی غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلکل اسی طرح پانی کے پودوں، گھاس اور چھوٹے خوردبینی پودوں کے لئے بھی ان ہی غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان غذائی اجزا میں نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاشیم سب سے اہم ہیں۔ جیسا کہ غذائی اجزا مسلسل استعمال ہوتے رہتے ہیں اسلئے زمین اور پانی میں ان کی کمی ہوتی رہتی ہے اسلئے ان کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کھاد استعمال کی جاتی ہے۔ کھاد ڈالنے سے ضروری غذائی اجزا پانی میں دبارہ شامل ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مچھلی اور پانی میں رہنے والے دیگر جاندار پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔ بلکل اسی طرح مچھلی اور دیگر آبی جانداروں کی پیداوار زیادہ ملتی ہے، جس طرح کھاد ڈالنے سے زرعی اجناس کی فصلوں کی پیداوار زیادہ ملتی ہے۔
زرعی فصلوں اور مچھلی میں فرق:۔ کھاد دینے کے لحاظ سے زرعی فصلوں اور مچھلی میں یہ فرق ہے کہ زرعی فصل کھاد کو سیدھی طرح جذب کرتے ہیں اور بڑھتے ہیں۔ جبکہ تالاب میں کھاد ڈالنے سے چھوٹے خوردبینی پودے پھلتے پھولتے ہیں (پانی کا سبز رنگ) اور مچھلی ان کو کھاتی ہے یا چھوٹے خوردبینی جانور اور دوسرے جاندار اور کیڑے مکوڑے ان کو کھاتے ہیں اور مچھلی کی خوراک بنتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ جتنی زیادہ کھاد ڈالیں گے اچھلی کی پیداوار میں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔
چھوٹے خوردبینی پودوں اور آبی گھاس کا آپس میں تعلق:۔ جیسا کہ چھوٹے خوردبینی پودوں کو اپنی نشو و نما کیلئے نائٹروجن، فاسفورس، پوٹاشیم اور دیگر غذائی اجزا کی ویسی ہی ضرورت ہوتی جیسی آبی گھاس پھوس اور بڑے پودوں کو۔ لہٰذا اگر آبی گھاس پھوس اور دیگر پودے تالاب میں ہونگے تو بڑے اور طاقتور ہونے کی وجہ سے پانی میں سے غذائی اجزا جلدی جذب کرلینگے اور چھوٹے خوردبینی پودوں کی نشو و نما کیلئے غذائی اجزا کم مقدار میں دستیاب ہونگے۔ اسطرح چھوٹے خوردبینی پودے کم تعداد میں پیدا ہونگے۔ نتیجتاً اس کے منفی اثرات مچھلی کی نشو و نما اور پیداوار پر پڑینگے۔ اسلئے ضروری ہے کہ مچھلی کے تالاب میں آبی گھاس اور دیگر پودے نہ ہوں۔
غیر ضروری آبی پودوں اور گھاس پر کنٹرول:۔ سردیوں کے دوران اکثر آبی پودے سوکھ جاتے ہیں یا ان کی نشو و نما رک جاتی ہے اور بہار کی آمد کے ساتھ ہی وہ دبارہ بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسلئے ان پر کنٹرول کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ بہار کے شروع ہوتے ہی تالاب میں کھاد ڈالی جائے۔ اسطرح آبی پودوں کے دبارہ زندہ ہونے سے پہلے ہی کھاد کی وجہ سے چھوٹے خوردبینی پودے نشوونما پانا شروع کرتے ہیں اور پانی کا سفید رنگ سبز میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اور نتیجتاً پانی کے سبز رنگ کی وجہ سے سورج کی شعائیں تالاب کی تہ میں نہیں پہونچ پاتیں اسطرح بڑے آبی پودے اور گھاس پھوس کی نشوونما رک جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مچھلی کے تالابوں میں بہار شروع ہوتے ہی اسے کھاد ڈالنے سے زرخیز بنایا جاتا ہے اور سردیاں آنے تک تالاب کے سبز رنگ کو بروقت کھاد کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے۔ اسطرح کھاد میں موجود غذائی اجزا بڑے آبی پودوں پہ ضایع ہونے کے بجائے مچھلی کی نشوونما کیلئے مطلوب چھوٹے خوردبینی پودوں کیلئے دستیاب ہوتے ہیں اور وہ نشوونما پاتے رہتے ہیں اور مچھلی خوب بڑھتی ہے۔
تالاب میں کھاد کی ضرورت کی پہچان:۔ تالاب کے پانی کے رنگ سے آپ جان سکتے ہیں اگر آپ کے تالاب میں مچھلی کیلئے قدرتی خوراک (چھوٹے خوردبینی پودے) کافی تعداد میں موجود ہیں یا نہیں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اگر تالاب کا پانی ہلکا سبز ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ تالاب میں مچھلی کی خوراک کم ہے اور اگر پانی گہرا سبز ہے تو اسکا مطلب واضح ہے کہ خوراک مناسب مقدار میں موجود ہے۔ اگر تالاب رنگ محض میلا سا ہے یا شفاف ہے تو اسکا مطلب ہے کہ خوراک یا تو موجود نہیں ہے یا اس کی انتہائی کم مقدار موجود ہے۔ اگر تالاب کا رنگ شفاف ہے یا تھوڑا سا ہرا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تالاب میں کھاد کی ضرورت ہے۔ آپ پانی کی زرخیزی کی پیمائش بھی کر سکتے ہیں۔ اسکا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ پانی میں کہنی تک ہاتھ ڈال کر دیکھنا چاہئے، اگر ہاتھ کی انگلیاں نظر نہ آئیں تو تالاب مناسب طور پہ زرخیز ہے۔ اسے معلوم کرنے کیلئے ایک چھوٹا سا آلہ بھی استعمال کیا جاتا ہے جسے سیچی ڈسک کہتے ہیں۔ یہ لوہے یا لکڑی سے بنی ایک پلیٹ ہے جس پر سفید اور کالے رنگ سے پٹے بنائے جاتے ہیں۔ اسے رسی یا کسی لکڑی کے ذریعے پانی میں ڈالا جاتا ہے۔ رسی یا لکڑی پر انچ یا سینٹی میٹر کے نشان لگائے جاتے ہیں۔ تصویر دیکھ کر اسے آسانی سے بنایا جاسکتا ہے۔ سیچی ڈسک کو آہستہ پانی میں ڈالتے ہیں اور جہاں وہ نظروں سے اوجھل ہو ریڈنگ نوٹ کرنی چاہئے۔ پھر اسے آہستہ اوپر اٹھانا چاہئے جہاں وہ پھر نظر آنے لگے یہ ریڈنگ بھی نوٹ کرنی چاہئے۔ پھر دونوں ریڈنگ کا اوسط سیچی ڈسک ریڈنگ ہے۔ ریڈنگ اگر ایک فٹ (۲۵ سینٹی میٹر) یا اس سے کم ہے تو آپ کا تالاب زرخیز ہے۔ اگر ریڈنگ زیادہ ہو تو کھاد ڈالنی چاہئے۔
تالاب میں زرخیزی نامیاتی اور غیر نامیاتی کھاد سے پیدا کی جاسکتی ہے۔ ان کھادوں کے استعمال کی تفصیل درج ذیل ہے۔ نامیاتی یا آرگینک کھاد: مویشیوں کا گوبر، مرغیوں یا بطخوں کا فضلہ اور گلے سڑے پودے نامیاتی کھاد کی قسمیں ہیں۔ ۔۔۔ تالاب میں مچھلی ڈالنے سے پہلے مویشیوں کا گوبر 3 سے 5 ٹن فی ایکڑ یا مرغیوں کے فارم کا فضلہ (مرغیوں کی بیٹ اور ضایع شدہ فیڈ) تقریباً ایک ٹن فی ایکڑ ڈالنا چاہئے تاکہ مچھلی کی قدرتی خوراک پیدا ہو۔ ۔۔۔ کھاد ڈالنے کے 3 یا 4 روز بعد مچھلی کا بچہ تالاب میں ڈالنا چاہئے۔ ۔۔۔ مچھلی کا بچہ ڈالنے کے بعد بھی روزانہ کی بنیاد پر کھاد ڈالتے رہنی چاہئے تاکہ خوراک کی کمی نہ ہو۔ ۔۔۔ جیسا کہ نامیاتی کھاد میں نائٹروجن، فاسفورس اور دیگر غذائی اجزا کی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لہٰذا تالاب میں ڈالنے کیلئے نامیاتی کھادوں کی کوئی خاص مقدار مقرر نہیں ہے۔ تخمینوں کی بنیاد پر کچھ اعداد و شمار اوپر دئے ہوئے ہیں تاہم اس کا بھترین تخمینہ آپ کے اپنے اندازے پر منحصر ہے جو آپ کو تجربے سے حاصل ہوگا اور وہ پانی کے رنگ اور کوالٹی کے ساتھ ساتھ مچھلی کی نقل و حرکت، صحت، نشونما اور سالانہ پیداوار کو نظر میں رکھ کر مقرر کیا جاسکتا ہے۔ ۔۔۔ کچھ ملکوں میں نامیاتی کھاد کی مقدار مچھلی کی مصنوعی خوراک کی طرح مچھلی کے وزن کے حساب سے ڈالی جاتی ہے۔ مثلاً اگر تالاب میں مچھلی کا کل وزن 200 کلوگرام ہے تو 20 کلوگرام فی ایکڑ تک نامیاتی کھاد ڈالیں گے۔ اگر مچھلی 400 کلوگرام ہے تو 30 کلوگرام تک کھاد روزانہ ڈالیں گے۔ اگر مچھلی کا وزن 800 کلوگرام ہے تو کھاد تقریباً 50 کلوگرام تک روزانہ ڈالیں گے۔ بڑی حد تک یہ تخمینے صحیح ہیں اور ان کے مطابق کھاد روزانہ ڈالی جاسکتی ہے۔ ۔۔۔ ایک اور طریقہ بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کے مطابق مچھلی کے کل وزن کے 2 سے 4 فیصد تک نامیاتی کھاد (خشک وزن کے برابر) روزانہ استعمال کی جاتی ہے۔ گائے اور بھینس کے گوبر میں خشک نامیاتی مادہ یا ڈرائی میٹر تقریباً 15 فیصد اور مرغیوں کے فضلے میں تقریباً 20 فیصد ہوتا ہے۔ اس طریقے کے مطابق تالاب میں ڈالنے کیلئے گوبر اور مرغیوں کی بیٹ کا وزن مندرجہ ذیل طریقے سے معلوم کیا جاسکتا ہے:۔ مرغیوں کی بیٹ: مچھلی کے کل وزن کو 0.03 سے ضرب دیں اور پھر اسے 5 سے ضرب دیں تو مرغیوں کے فضلے کا وزن معلوم ہوجائے گا۔ مثلاً آپ کے تالاب میں 100 کلوگرام مچھلیاں ہیں تو 100 ضرب 0.03 ضرب 5 تو جواب 15 کلوگرام فی ایکڑ روزانہ۔ گائے بھینس کا گوبر: اگر مچھلیوں کا کل وزن 100 کلوگرام ہے تو 100 ضرب 0.03 ضرب 6.7 تو جواب ہے 20 کلوگرام فی ایکڑ روزانہ۔ ۔۔۔ ایک رسرچ کے مطابق مچھلیوں کے تالاب میں 40 سے 45 کلوگرام فی ایکڑ روزانہ تک نامیاتی کھاد ڈالی جائے تو نقصان کا اندیشہ نہیں۔ ۔۔۔ شروع میں تو آپ اوپر بیان کردہ طریقوں میں سے کوئی اپنے فارم کیلئے اپنا سکتے ہیں، تاہم جیسا کہ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں ہماری رائے میں نامیاتی کھاد کا بھترین تخمینہ آپکے اپنے اندازے پر منحصر ہے۔ جو آپ کو اپنے تجربے سے حاصل ہوگا اور وہ پانی کے رنگ اور کوالٹی کے ساتھ ساتھ مچھلی کی نقل و حرکت، صحت، نشونما اور سالانہ پیداوار کو نظر میں رکھ کر مقرر کیا جاسکتا ہے۔ آپ کھاد کی مقدار تب تک بڑھا سکتے ہیں جب تک کہ مچھلی کو نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔ ۔۔۔ مچھلی کا بچہ تالاب میں ڈالنے سے پہلے اسے تولنا چاہئے۔ اسطرح کھاد یا خوراک کا تخمینہ لگانا آسان ہوگا۔ مچھلی چونکہ سائیز میں بڑھتی رہتی ہے اسلئے ہر ماہ مچھلی کا وزن کیا جائے اور اسکا آسان طریقہ یہ ہے کہ چند مچھلیوں کو پکڑ کر ہر ایک کا علیحدہ سے وزن کریں اور پھر انکا اوسط نکال کر مچھلیوں کی کل تعداد سے ضرب دیدیں۔ اسطرح آپ کو تالاب میں مچھلی کا ٹوٹل وزن معلوم ہو جائے گا۔ اس طرح کھاد یا مچھلی کی خوراک کا تخمینہ لگانا آسان ہوگا۔
مصنوئی کھاد کا استعمال:۔ مچھلی کی بھتر اور زیادہ پیداوار کیلئے نامیاتی کھاد کیساتھ مصنوئی کھاد بھی استعمال کرنی چاہئے۔ نامیاتی اور مصنوئی کھاد کے ایک ساتھ استعمال سے مچھلی کی پیداوار کئی گنا تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ تالاب میں مچھلی ڈالنے سے پہلے اور بعد میں بھی دونوں قسم کی کھاد استعمال کرنی چاہئے۔ مصنوئی کھاد کے استعمال کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے:۔ ۔۔۔ نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاشیم تینوں قسم کی کھاد ملا کر استعمال کرنی چاہئیں۔ مچھلی کیلئے تینوں اجزا کا تناسب 20-20-5 ہونا چاہئے یعنی 20 فیصد نائٹروجن، 20 فیصد فاسفورس اور 5 فیصد پوٹاشیم۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس تناسب کی کھاد لائیں کہاں سے؟ کیونکہ ایسی کھاد مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ انہیں مناسب تناسب سے ملاکر ایسی کھاد بنائی جاسکتی ہے۔ ۔۔۔۔ ڈی اے پی، یوریا اور پوٹاش کی کھادیں: ڈی اے پی 8 کلوگرام + یوریا 5 کلوگرام + پوٹاش 1.5 کلوگرام ملاکر فی ایکڑ ڈالیں۔ ۔۔۔۔ ڈی اے پی ، امونیم سلفیٹ اور پوٹاش: ڈی اے پی 8 کلوگرام, امونیم سلفیٹ 10 کلوگرام اور پوٹاش 1.5 کلوگرام ملانے سے مطلوبہ کھاد تیار ہوگی۔ فی ایکڑ یہ مقدار ڈالیں۔ ۔۔۔ اوپر بتائی ہوئی کھادوں میں سے کوئی ایک مکسچر استعمال کریں۔ ہماری رائے میں یوریا کے بجائے امونیم سلفیٹ ڈالی جائے تو تالاب کے لئے زیادہ بہتر ہوگی۔ ۔۔۔ کھادیں بہار کی آمد سے لیکر سردیوں کے آنے تک استعمال کریں اور فش کی بہتر نشونما کے لئے ہر ۲ ہفتے کے وقفے سے استعمال کریں۔ کھاد تالاب میں سیدھی نہ ڈالیں بلکہ پانی میں مکس کرکے حل کرلیں پھر تالاب کے اوپر اس کا چھڑکاؤ کریں۔
کچھ ضروری احتیاطیں:۔ ۔۔۔ کبھی بھی 2 فٹ سے کم گہرائی والے تالاب کی زرخیزی بڑھانے کیلئے کھاد استعمال نہ کریں کیونکہ اس طرح غیر ضروری پودے پیدا ہونگے۔ ۔۔۔ بتائی ہوئی مقدار سے زیادہ کھاد استعمال نہ کریں، حد سے زیادہ کھاد ڈالیں گے تو اس سے پانی کی سطح پر کائی پیدا ہوگی جس کی وجہ سے تالاب میں آکسیجن کی کمی ہوسکتی ہے اور اس کا نتیجہ مچھلیوں کی اموات ہو سکتا ہے۔ ۔۔۔ اگر ممکن ہو تو تالاب کی تہ میں ہل چلائیں اسطرح تالاب کی زرخیزی میں اضافہ ہوگا اور کئی غذائی اجزا جیسے فاسفورس، جو کہ تہ کی مٹی میں دھنس جاتے ہیں، قابل استعمال حالت میں آ جائیں گے۔ ۔۔۔ گوبر کے ساتھ مویشیوں کا پیشاب بھی کھاد کا حصہ ہے۔ لہٰذا اسے بھی گوبر کے ساتھ شامل کریں۔ ۔۔۔ اگر مچھلی صبح سویرے تالاب کی سطح پہ آئے اور منہ کھول کر سانس لینے کی کوشش کرے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ کے تالاب میں آکسیجن کی کمی ہے، لہٰذا کھاد ڈالنا اور خوراک دینا فوری طور پہ بند کردیں اور تازہ پانی تالاب میں ڈالیں۔ ۔۔۔ اگر آکسیجن کی کمی معمول بن جائے تو کھاد اور خوراک کے معمول کے وزن کو کم کردیں یا کچھ مچھلی تالاب سے کہیں اور منتقل کریں۔ ۔۔۔ برسات کے موسم میں یا جب اکثر بادل چھائے ہوئے رہتے ہوں تب بھی کھاد اور خوراک کی مقدار معمول سے کم کردینی چاہئے۔ ۔۔۔ دیگر ملکوں میں مچھلی کے تالابوں میں آکسیجن کی کمی کو دور کرنے کیلئے ایریٹر (بڑے ایئر پمپ) چلاتے ہیں۔ اس کام کیلئے پانے کے راستے میں پتھر وغیرہ بھی ڈال سکتے ہیں یا اگر پانی اونچائی سے آتا ہو تو تالاب میں گرنے سے پہلے چھلنی لگائیں تاکہ پانی میں قدرے زیادہ آکسیجن داخل ہو۔ لیکن یہ ایریٹر کا متبادل نہیں۔ ۔۔۔ تالاب کے پانی کا رنگ گہرا سبز ہونا چاہئے۔ پانی کی کوالٹی پر ہمیشہ گہری نظر رکھنی چاہئے۔