صحرا اور بنجر کھاری زمینوں اور کھارے پانی میں زراعت اور فش فارمنگ؟ Is it possible to farm Deserts and Arid Land on Saline Water? جی ہاں جب آپ کسی سے یہ بات کہیں گے تو لوگ حیرت سے آپکو دیکھیں گے اور شاید کچھ لوگ مجنوں ہی سمجھہ لیں۔ لیکن یہ کوئی ان ہونی نہیں دینا میں ایسے خطے ہیں جہاں صحرا کو نخلستان میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں افریقہ، ایشیا اور جنوبی و شمالی آمریکا میں موجود ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں ایسے حالات میں کیا اگایا یا پالا جاسکتا ہے۔
ہمارے ملک میں میٹھے پانی کی کمی کے باوجود ہم پانی کے غیر روایتی ذرائع کو استعمال کرنے کے متعلق کوئی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ ایسے بہت سے ذرائع ہیں جنہیں اگر چھوٹے پیمانے پر اختیار کیا جائے تو شاید بڑے اقدامات جیسے ڈیم وغیرہ کی ضرورت نہ رہے۔ برسات ایسے ذرائع میں ایک بہت اہم ذریعہ ہے مگر ہم اسے بہہ جانے دیتے ہیں۔ اگر ہم اسے ہی ملک کے طول و عرض میں جمع کرنا شروع کریں تو شاید پینے کے پانی کے ساتھ ساتھ زراعت کیلئے بھی کافی پانی مہیا کر سکیں اور ہمارا انحصار اریگیشن کے پانی پر بہت کم ہوجائے۔ ملک میں بکثرت ایسے علاقے ہیں جہاں اریگیشن کا پانی دستیاب نہیں یا مناسب مقدار میں دستیاب نہیں (تقریباً ۲۵ فیصد رقبہ)، اور وہاں پانی کی کمی کی وجہ سے زمین آباد نہیں ہو پاتی اور سیم و تھور کا شکار ہوجاتی ہے۔ اگر ایسے علاقوں میں پانی دستیاب ہوجائے تو یہ علاقے بھی آباد ہو سکتے ہیں۔ پانی کے غیر روایتی ذرائع جیسے برسات کے پانی کا اگر دانشمندانہ استعمال کیا جائے تو ریگستانوں کو نخلستان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اسطرح پینے کے پانی کا مسئلہ بھی بڑی حد تک حل کیا جاسکتا ہے اور اضافی پانی محدود قسم کی فارمنگ کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک جیسے نائیجر، نائیجیریا، سوڈان، مراکش، ایریٹیریا، کینیا، برکینوفاسو، مصر، اسرائیل، چلی، پیرو، انڈیا اور نیپال میں پانی کے غیر روایتی ذرائع سے مکمل استفادہ کیا جارہا ہے۔ ان ملکوں میں جو طریقے اپنائے گئے ہیں ان میں سے چند کے متعلق نیچے بیان کیا جارہا ہے۔
:(Inland Saline Aquaculture) زیر زمین کھارے پانی میں سمندری مچھلی، جھینگوں وغیرہ کی افزائش سمندر میں کھارا پانی ہے اور اس میں مچھلی، کیکڑے، جھینگے اور انواع و اقسام کی حیات پنپتی ہے۔ مچھلی، جھینگے، کیکڑے اور دیگر اقسام کے جانور سمندر کے کنارے تالابوں میں اور سمندر کے اندر پنجرے بناکر پالے جارہے ہیں۔ بہت سے ملکوں میں ان جانوروں کو سمندر سے دور زیر زمین کھارے پانی میں بھی پالا جارہا ہے اور آجکل یہ ایک کامیاب کاروبار ہے۔ پاکستان میں ۵۸ فیصد زیر زمین پانی کھارا ہے جو کسی کام کا نہیں، لہٰذا اس پانی کو سمندری مچھلیوں اور جانوروں کی افزائش کیلئے بخوبی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسطرح ایک بیکار وسیلے کو کار آمد مقصد کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایسے پانی میں سی ویڈ یا سمندری گھاس بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی مضمون یہاں پڑھیں۔
:(Harvesting Rain Water through Pond Construction) برسات کا پانی جمع کرنے کیلئے تالاب بنانا برسات کے پانی کو اسٹور کرنے کیلئے تالاب بنائے جاسکتے ہیں جو کہ خشک موسم میں فصل سیراب کرنے کیلئے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ تالاب نشیبی جگہ پر بنانا چاہئے تاکہ ساتھ کی زمینوں سے پانی لڑھک کر تالاب میں جمع ہوسکے۔ چھت کے پانی کو جمع کرنے کیلئے بھی چھوٹے تالاب بنائے جاسکتے ہیں جن کا پانی گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ سبزی ترکاری پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ نیپال اور انڈیا وغیرہ میں کامیابی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ پینے کیلئے برسات کا پانی ڈرموں یا ٹینک میں اسٹور کیا جاسکتا ہے لیکن پہلے کچھ پانی تالاب میں جانے دیں تاکہ چھت صاف ہوجائے اور پھر پینے کا پانی اسٹور کرنا چاہئے۔ جن علاقوں میں نہری پانی فقط کسی ایک سیزن مین دستیاب ہوتا ہے وہاں پر بھی تالاب بناکر پانی جمع کیا جاسکتا ہے جو کہ خشک سیزن میں دستیاب ہوگا۔ ان تالابوں کی وجہ سے کوئیں اور نلکے (ہینڈ پمپ) ریچارج بھی ہوسکتے ہیں اور اسطرح پینے کے پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ زیر زمین پانی کو ریچارج کرنے کیلئے اسپیشل طریقے بھی اپنائے جاسکتے ہیں۔
:(Developing Check Dams in watershed and streams) چھوٹے چھوٹے چیک ڈیم بناکر پانی ذخیرہ کرنا برساتی پانی کے راستے میں چھوٹے چھوٹے بند تعمیر کرنے سے چھوٹے چھوٹے تالاب اور اور جھیلیں بن جاتی ہیں۔ اس پانی کو بعد میں قریب کی زمینوں کو سیراب کرنے کے علاوہ پینے کے پانی کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ چیک ڈیم کی وجہ سے زیر زمین پانی کو بھی ریچارج کیا جاسکتا ہے۔ چیک ڈیم پہاڑی علاقوں کیلئے انتہائی کارآمد ہوتے ہیں۔ چیک ڈیم سے متعلق تفصیلی معلومات کیلئے یہاں کلک کریں۔
:(Harvesting Water from Roads) روڈ یا راستوں سے برساتی پانی کو جمع کرنا ہمارے ملک میں چھوٹے بڑے، کچے اور پکے بہت سارے روڈ رستے ہیں جن سے اگر پانی کو ذخیرہ کیا جائے تو بڑی مقدار میں پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ روڈ رستوں کے ساتھ کھالیں بناکر برسات کے پانی کو آسانی سے کسی نشیبی جگہ جمع کیا جاسکتا ہے جو کہ کھیتی باڑی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
:(Constructing Sand Dams or Underground Dams) ریت کے ڈیم یا زیر زمین ڈیم بناکر پانی زخیرہ کرنا ایسے علاقے جن کی زمین نشیب و فراز پہ مشتمل ہے وہاں اترائی کی طرف دیوار بناکر ڈیم سا بنا دیا جاتا ہے، یہ ڈیم بظاہر ریت کا ہوتا ہے تاہم ریت کے نیچے پانی ٹریپ ہوجاتا ہے۔ چونکہ یہ علاقے گرم ہوتے ہیں اور برسات کے فوراً بعد پانی بخارات میں تبدیل ہوکر اڑ جاتا ہے تاہم ریت کے ڈیم کی وجہ سے پانی ریت کی موٹی تہہ میں پھنس جاتا ہے جسے ڈیم کے ڈھلان میں کواں بناکر یا ڈیم کے بیس میں نل لگا کر نکالا جاتا ہے جوکہ ریت میں سے چھن کر آنے کی وجہ سے صاف ہوتا ہے اور تقریباً مستقلاً دستیاب ہوسکتا ہے۔ پینے کے علاوہ اضافی پانی محدود پیمانے پر سبزیاں وغیرہ کاشت کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
:(Fog Harvesting) فوگ ہارویسٹنگ یا دھند سے پانی کا حصول فوگ یا دھند کو کئی ملکوں میں پینے کے پانی حاصل کرنے اور دیگر مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان مین بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں دھند کی موجودگی سے فائدہ اتھایا جاسکتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مخصوص قسم کی باریک جالیاں جو کہ کم از کم ایک مربع میٹر سے لیکر کئی مربع میٹر کی ہوتی ہیں دھند کے راستے میں لگائی جاتی ہیں۔ جالیوں کے نچلے سرے پر پائیپ کو کاٹ کر اس طرح لگایا جاتا ہے کہ جالیوں سی قطرہ قطرہ پانی ان پائپوں میں گرتا ہے جو کسی برتن یا ٹینک سے جڑے ہوتے ہیں۔ پانی اس برتن یا ٹینک میں جمع ہوتا رہتا ہے۔
:(Green House Farming and Water Harvesting) پولی شیٹ سے بنے گرین ہائوس بناکر سبزیاں اگانا اور میٹھا پانی حاصل کرنا گرین ہائوس عام طور پہ پودوں اور جانوروں کی افزائش کیلئے مخصوص موسمی حالات مہیا کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ تاہم ساحلی علاقوں یا ریگستانوں میں جہاں میٹھا پانی دستیاب نہیں گرین ہائوس کو سبزیاں اگانے کے ساتھ میٹھا پانی حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ گرین ہائوس میں گرمی کی وجہ سے کھارا پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے۔ گرین ہائوس کو ان بخارات میں سے بننے والے پانی کے قطروں کو ٹریپ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے۔ اس پانی کو پینے اور سبزیاں اگانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے گرین ہائوس کی چھت اور دیواروں کو اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ بخارات سے بننے والے پانی کے قطروں کو جمع کیا جاسکے۔
:(Tree Planting Techniques using seasonal Rains) برسات کے پانی پر درخت یا فصل اگانا۔ :(Zai Planting Technique) الف) برسات سے پہلے پودوں کیلئے گڑھے بنانا یہ طریقہ کار بنجر زمین میں درخت یا فصل اگانے کیلئے آفریقہ میں بہت کامیابی سے استعمال ہو رہا ہے۔ برسات سے پہلے زمین میں تقریباً ایک مربع فٹ اور ایک فٹ گہرائی کا گڑھا کھودا جاتا ہے اور اس میں نامیاتی کھاد جیسے گلی سڑی گوبر (یا کوئی اور قسم کی نامیاتی کھاد) کے ساتھ درختوں یا فصل کی بیج اس مین ڈال دی جاتی ہے۔ برسات کے بعد پودے اس گڑھے میں اگنا شروع ہوجاتے ہیں اور کھاد کی موجودگی کی وجہ سے پلتے بڑھتے رہتے ہیں۔ پودے سے کھودی گئی مٹی کو ڈھلان کی سائیڈ پہ پھیلادینا چاہئے تاکہ وہ پانی کی زیادہ مقدار کو روکے۔ گڑھوں میں نامیاتی کھاد اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی اکثر زمینیں چکنی مٹی یا سلٹ پر مبنی ہیں اور ان میں وہ نرمی نہیں جو اکثر پودوں کے اگنے کیلئے ضروری ہے۔ نامیاتی کھاد زمیں میں ضروری نامیاتی مادے شامل کرنے کا سبب بنتی ہے۔
:(Demi-Lune technique) ب) برسات سے پہلے پودوں کیلئے باڑھ باندھنا یا بند بنانا یہ ایک طرح سے قدیمی طریقہ کار ہے جو پاکستان کے بارانی علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن ایک واضح فرق یہ ہے کہ پاکستان کے بارانی علاقوں میں بڑے قطہ اراضی بر بند باندھے جاتے ہیں جن میں مون سون کے مہینوں میں ہونے والی بارشوں کا پانی جمع کیا جاتا ہے۔ ان زمینوں میں عام طور پہ گندم کاشت کی جاتی ہے جو کہ ربی کی فصل ہے اور اس وقت تک برسات کے پانی کو روکے رکھنا یا زمین کی مناسب نمی برقرار رکھنا ایک مشکل مرحلہ ہے اور فصل کی پیداوار پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔ ان حالات میں بڑے رقبے پر بند بنانے کے بجائے کئی دیگر ملکوں میں چند فٹ قطر کے نصف دائرے کی شکل کے چھوٹے بند یا باڑھ بناکر اگر ان میں ایگروفاریسٹری کی طرز پر درخت اور خریف کے فصل کے بیج کمپوسٹ کھاد کیساتھ بوئے جائیں تو شاید زیادہ مفید ہوں۔ افریقا کے کئی ملکوں میں اسی طرح صحرا آباد کئے جارہے ہیں۔ جبکہ اسرائیل میں اس اصول پر عمل کرتے ہوئے ہزاروں ایکڑ بنجر زمین پر جنگلات اگائے جاچکے ہیں۔