میٹھے پانی کی دستیابی ایک عالمی مسئلہ ہے اور بدلتے ہوئے موسمی حالات نے دنیا کے کئی حصوں میں اسے ناقابل اعتبار بنا دیا ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک کو مسلسل خشک سالی کے سےحالات کا سامنا ہے اور میٹھے پانی کی دستیابی ان کے لئے ایک خواب ہے۔ پاکستان میں بھی صحرائی اور میدانی علاقوں کے حالات اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، جیسا کہ صحرائے تھر جہاں ہم مویشیوں اور فصلوں کے ساتھ ساتھ قیمتی انسانی جانوں کو بھی کھو رہے ہیں۔ اس صورتحال کا تقاظہ ہے کہ میٹھے پانی کی کمیابی کا حل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ زیر زمین کھارے پانی کو خوراک کی پیداوار کے لئے استعمال کیا جائے۔ زیر زمین کھارا پانی انتہائی قحط زدہ ملکوں ایتھوپیا، صومالیہ اور انگولا تک میں موجود ہے اور ہمارے ملک کے بیشتر علائقوں میں وافر مقدار میں باآسانی دستیاب ہے لہذا اس طرح کے پانی میں فارمنگ کے متعلق سوچا جانا حیاتیات کی بقا کیلئے بہت مناسب اور وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
زراعت کے لئے زیر زمین کھارے پانی کی افادیت کو طویل عرصے سے محسوس کیا جاتا رہا ہے لیکن زرعی فصلوں کیلئے یہ مؤثر ثابت نہیں ہوا کیونکہ عملی طور پر تقریبا تمام زرعی اجناس میٹھے پانی پر ہی انحصار کرتی ہیں یا انہیں کھارے پانی کے ساتھ ساتھ میٹھے پانی کی بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری جانب کھارا پانی دنیا بھر میں سمندری حیات کی پرورش کیلئے عملی طور پراستعمال ہو رہا ہے جسے ہم میریکلچر یا کوسٹل اکواکلچرکے نام سے جانتے ہیں۔ کوسٹل اکواکلچر کے علاوہ سمندر سے دور خشکی پر بھی زیر زمین کھارے پانی میں سمندری مچھلیوں اور پودوں کی کاشت کی جارہی ہے اور شمالی و لاطینی امریکہ، آسٹریلیا، مشرق وسطی سمیت دنیا کے کئی حصوں میں ایسے پانی میں سمندری مچھلیوں، جھینگوں، کیکڑے، گھونگھوں اور سمندری گھاس کی کامیاب افزائش کی جارہی ہے۔ تھائی لینڈ، آسٹریلیا، برازیل، اسرائیل، مصر، ویت نام، چین، بھارت وغیرہ سمیت کئی ممالک میں یہ ایک بڑھتی ہوئی صنعت ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی الباما، ٹیکساس، فلوریڈا اور ایریزونا ریاستوں میں زیرزمین کھارے پانی کو کئی طرح کی مچھلیوں، جھینگوں اور دیگر سمندری پرجاتیوں کو اگانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے.
زیر زمین کھارے پانی میں مچھلی کی افزائش کے ذریعے زراعت سے وابستہ لوگوں کی آمدنی بڑھانے کے ساتھ ساتھ زراعت کو تنوع دینے کی زبردست صلاحیت موجود ہے؛ اور اس کا سب سے بڑا فائدا یہ ہے کہ اس کے ذریعے سیم و تھور کی وجہ سے ناقابل کاشت زمینوں کو قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے۔ یہ میٹھے پانی کی کمی اور خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں بھوک مٹانے اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں بہت بڑے رقبے پر زیر زمین پانی کے ذخائر کھارے ہیں جنہیں سمندری مچھلی کی افزائش کے ذریعے معاشی فائدے کیلئے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ پاکستان بھر میں آبپاشی کے کمانڈ ایریا میں زیر زمین نمکین پانی کے ذخائر 11.1 ملین ایکڑ سے زیادہ ہیں، یہاں تک کہ پنجاب اور سندھ کے نہری علاقوں میں بھی زیر زمین نمکین پانی کے ذخائر چھوٹے پاکٹس کی صورت میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور بہت ساری کھاری جھیلیں بھی اندرون ملک موجود ہیں۔ جبکہ زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر دریائے سندھ کے ساتھ ایک تنگ پٹی تک محدود ہیں۔ صوبہ سندھ میں 78٪ فیصد زیر زمین پانی کھاری ہے، جبکہ پنجاب میں تقریباً 23 فیصد زیر زمین پانی زراعت کے لحاظ سے کمتر معیار کا ہے. مزید برآں، صوبہ سندھ میں کل سیراب زمین کا تقریبا 56٪ فیصد حصہ سیم و تھور سے متاثر ہے۔ سیم و تھور کے اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک بھر میں تقریباً 1,00,000 ایکڑ سالانہ کاشتکاری سے ترک کئے جا رہے ہیں۔ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ سیم و تھور سے براہ راست متاثر ہے اور 2020 تک ایسے لوگوں کی تعداد 32 ملین سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔ مزید برآں، صوبوں میں نہری پانی کی صورتحال حوصلہ افزا نہیں جس کی وجہ سے زرعی زمینوں کی پیداوری صلاحیت متاثر ہورہی ہے اور کسان معاشی نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں، خاص طور پر چھوٹے کسان بحران کی زد میں ہیں۔ ایک جانب ناقص معیار کے زیر زمین پانی کے استعمال کی وجہ سے زرعی زمین سیم و تھور کا شکار ہونے کی وجہ سے کم پیداوار کی حامل ہوتی جارہی تو دوسری جانب ایسی زمین میں کاشت پر اخراجات بھی نسبتاً زیادہ آنے کی وجہ سے زراعت کی پائیداری اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے خوراک کی ضروریات پورا کرنا ایک سوالیہ نشان ہے۔
اس صورت حال میں زیرزمین کھارے پانی کی اقتصادی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور کسانوں کو اس پانی میں مچھلی کی افزائش کی افادیت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اس سے زرعی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ برابر کی زمینوں کو قابل کاشت بنایا جاسکے گا کیونکہ کھارے پانی کے مچھلی کے تالاب آس پاس کی زمینوں سے نمک چوس کر انکی بحالی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اسطرح کے تالاب دنیا کے کئی ملکوں میں کھارے پانی کے علائقوں میں سمندری مچھلی کی افزائش کے ساتھ ساتھ زرعی زمینوں کی بحالی کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔
کوسٹل ایریا میں بھی حالات وگرگوں ہوتے جارہے ہیں جہاں سمندر کے مسلسل آگے بڑھتے رہنے کی وجہ سے تقریباً 22 لاکھ ایکڑ زرعی زمین اب تک کھارے پانی کی نذر ہو چکی ہے، اور وہاں زیر زمین پانی کے وسائل کھاری سے کھاری تر ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے کسان بھی فشنگ کو روزگار کے طور پر اپنا رہے ہیں، اسطرح مچھلیاں پکڑنے میں اضافے کے ساتھ نت نئی تکنیکوں کے استعمال کی وجہ سے سمندر کے قدرتی وسائل خاتمے کی حد تک پہنچ گئے ہیں۔ ملک کے فشریز سیکٹر کی مجموعی آمدنی کا تخمینہ کچھ سال پہلے ایک ارب ڈالر لگایا گیا تھا لیکن ان حالات کی وجہ سے یہ صرف 20 سے 30 کروڑ ڈالر پہ منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔
ملک میں میٹھے پانی کی کمی، سیم و تھور سے متاثرہ علاقوں میں روایتی زراعت کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور زیر زمین کھارے پانی کی وافر دستیابی کے پیش نظر ان علاقوں میں غربت کے خاتمے اور متبادل روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے زیر زمین کھارے پانی میں سمندری مچھلیوں کی افزائش کو فروغ دینا چاہئے تاکہ دیہی معیشت کی ترقی اور کسانوں کی فلاح کو ممکن بنایا جا سکے۔
لیکن اس کام کو آگے برھانے سے قبل ملک میں اکواکلچر کے پرانے ناکام تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیر زمین کھارے پانی میں سمندری حیات کی افزائش کی کامیابی کو ممکن بنانے کیلئے مضبوط تحقیقی بنیاد قائم کرنے کی ضرورت ہے جسکے ذریعے کھارے پانی میں سمندری مچھلیوں اور دیگر حیات کی افزائش کے لیے موزوں ہونے پر تحقیق کی جانی چاہئے، اور اس کے لیے سب سے پہلے زیرِ زمین پانی کا تجزیہ کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے مختلف اجزا جیسا کہ سوڈیم اور پوٹاشیم وغیرہ کا آبی جانوروں کی افزائش پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ پانی کی کوالٹی کے تجزیے کے ساتھ ساتھ زیرِ زمین کھارے پانی والے علاقوں کے نقشے بھی تیار کیے جانے چاہیئں اور مانیٹرنگ کی جانی چاہیے جس کے لیے جیوگرافک انفارمیشن سسٹم اور ریموٹ سینسنگ جیسی ٹیکنولاجیز سے مدد لی جا سکتی ہے۔
کامیاب تحقیق کے نتیجے میں کھارے پانی سے متاثر زمینوں میں چھوٹے پیمانے پر اکواکلچر کے کئی مواقع حاصل ہو نے کے علاوہ دیہی ترقی کا نیا باب کھلنے کی توقع ہے۔
بشکریہ ڈان۔ یہ آرٹیکل ڈان آنلائین میں ۲۷ مارچ ۲۰۱۵ کو شایع ہوا۔ اصل آرٹیکل کو درج ذیل ویب سائیٹ پر پڑھا جاسکتا ہے۔ http://www.dawnnews.tv/news/aj